سائبر کرائم بل کے غلط استعمال کا خدشہ
تحریر : سید محمد احسن سائبر کرائم بل قومی اسمبلی سے منظوری کےبعد حتمی منظوری کے لئے سینٹ چلا گیا ہے ، جہاں سے اگر یہ بل پاس ہوگیا تو قانون کی شکل اختیار کرلے گا لہذا انسانی حقوق کے منافی یہ بل پاکستان کے کروڑوں انٹرینٹ صارفین کو جیل میں بند کرنے کئے لئے بنایا جارہا ہے، مگر حکومت کو چاہئے کہ اس بل کے قانون بننے سے پہلے جیلوں اور تھانوں کی تعداد میں بھی اضافہ کردیں کیونکہ پاکستانی معاشرے کی روایت کے مطابق اس قانون کا بھی لازمی غلط استعمال ہونا ہےاور پھر کسی بھی انٹرنیٹ صارف کا اس سے بچنا مشکل ہے ۔
سروے کے مطابق گذشتہ روز متنازعہ سائبر کرائم بل کے حوالے سے سوشل میڈیا پر گرما گرم بحث جاری رہی، سوشل میڈیا صارفین نے حکومت کے سائبر کرائم بل پر شدید تنقید کی اور اسے انسانی حقوق کے منافی قرادیا، جبکہ اپوزیشن رہنما اور دیگر سیاسی جماعتوں کے سربراہوں نے بھی اس بل کو ناقص قرار دیتے ہوئے اس میں ترمیم کرنے کا مطالبہ کیا، کیونکہ اس سائبر کرائم کے حوالے سے بنائے گئے اس بل میں متنازعہ اور غیر واضح آرٹیکلز موجو د ہیں جنکی وضاحت بہت ضروری ہے۔
جیسے اس بل میں مذہب، ملک ، عدالت ، افواج، اور حکومت پر تنقید کو جرم قرار دیا ہے، انٹرنیت سائبر کرائم بل کے مطابق اگر کسی نے سوشل میڈیا پر نفرت انگیز بات پھیلائی تو اسے ایک کروڑروپے جرمانہ اور پانچ سال کی قید کی سزا ہوسکتی ہے تاہم بل میں نفرت انگیز بات کی وضاحت نہیں ہے، اگر سوشل میڈیا پر کسی بھی بات کو کوئی نفرت انگیز قرار دے کر مقدمہ دائر کردے تو ٹرائل بھگتنا ہوگا، قانون سازی میں حدودکا تعین سب سے زیاد ہ ضروری ہے جو اس بل میں نظر نہیں آرہا ۔
اسی طرح بل میں لکھا ہے کہ منفی مقاصد کے لئے اگر کسی ویب سائٹ کو بنایا گیا ہے تو ایسے شخص کو ۵۰ لاکھ روپے جرمانا اور تین سال کی قید ہوسکتی ہے، یہاں بھی منفی مقاصد کی وضاحت نہیں کی گئی، اگر کسی بھی مخالف کی ویب سائٹ کو منفی مقاصد کے لئے استعمال ہونے والی قرار دے دیا جائے تو اس پر بھی مقدمہ دائر ہوگا اور ملزم کو ٹرائل بھکتا پڑے گا۔
سینٹ میں اگر خدانخواستہ یہ بل منظور ہوکر قانون بن گیا ملک میں موجود دیگر قوانین کی طرح اس بل کا بھی بے دریغ غلط استعمال شروع ہوجائے گا،اور مخالفین ایک دوسرے پر اس قانون کی آڑ میں مقدمات درج کرواکر اپنی دشمنیاں نکالیں گے ، حکومت اپوزیشن کے خلاف اس بل کا استعمال کریگی وغیرہ وغیرہ، پاکستان پہلے ہی شدت پسند اور عدم برداشت پر مبنی سیاسی کلچر کا شکار ہے ایسے میں اس بل کا قانون بن جانا مزید سیاسی،مذہبی اور لسانی دشمنیوں کو فروغ دینے کا سبب بنے گا۔
مگر سوشل میڈیا کے غلط استعمال کی روک تھا کے لئے اسطرح کے قوانین کا بنانا بھی بہت ضروری ہے ، سائبر کرائم کی روک تھا م سے کسی کو انکار نہیں لیکن اسکی آڑ میں سیاسی مقاصد کا حصول اور اظہار رائے کی آزادی پر قذقن پر سب کو اعتراض ہے ۔
لہذا سینٹ میں موجو د اہل فکر سینٹرز گذارش ہے کہ اس بل پر نظرثانی کریں،اگرقانون بنانا بھی ہے تو اسکے آرٹیکلز کو وضاحت کے ساتھ پیش کریں یا لکھیں، کرائم اور تنقید یا اظہار رائے کی آزادی میں فرق کو واضح کریںتاکہ اس قانوں کا غلط استعمال نا ہوسکے۔
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں