ترک صدر طیب اردغان اور خلافت عثمانیہ کا خواب

تحریر : سید محمد احسن
Twitter: @only_ahsan

گذشتہ رات ترک فوج کے ہیڈکوارٹرز پر حکومت نواز ملکی فوجی دستوں کا کنٹرول بحال ہوگیا ہے،ترک صدر نے آج علی الصبح ایک نشریاتی خطاب میں کہا کہ فوج کے ایک چھوٹے سے گروہ کی طرف سے بغاوت کی سازش کو عوام نے ناکام بنا دیا ہے۔استبنول میں انہوں نے کہا کہ فوج میں شامل غداروں کو سخت سزا دی جائے گیترکی کے ایک سینیئر اہلکار کے مطابق فوج کے ہیڈکوارٹرز پر حکومت نواز ملکی فورسز نے دوبارہ کنٹرول حاصل کر لیا ہے،  ناکام بغاوت کے دوران نوے ہلاک اور ایک ہزار سے زائد زخمی ہوئے ہیں۔ اسی دوران مغوی بنائے گئے فوج کے سربراہ کو بھی رہا کرا لیا گیا ہے۔

دوسری جانب پارلیمنٹ اور صدارتی محل پر حملوں کا سلسلہ بھی تقریباً ختم ہو گیا ہے،  انقرہ حکومت کے اہلکاروں کے مطابق ترک مسلح افواج کے 754 اہلکاروں کو حراست میں لے لیا گیا ہے۔ ناکام فوجی بغاوت کے بعد 29 کرنل اور پانچ جنرل برطرف کر دیے گئے ہیں۔ترک فوج کے ایک گروہ نے دعویٰ کر رکھا ہے کہ اس نے ملک کی اہم تنصیبات کا کنٹرول سنبھال لیا ہے جبکہ جمہوری حکومت کے منتخب وزیر اعظم بن علی یلدرم کا کہنا ہے کہ فوجی بغاوت کی کوشش کو ناکام بنانے میں اہم پیشرفت ہوئی ہے۔

واضح رہے کہ جمعے کی شب فوج کے ایک دھڑے نے اچانک ہی ملک میں مارشل لاء کے نافذ کا اعلان کر دیا تھا، جسکے بعد ترکی میں جھڑپوں کا ایک سلسلہ شروع ہوگیا  تاہم اس بات میں شدید اختلاف پایا جارہا ہے کہ ترک فوج کے اندر اتنی بڑی بغاوت موجود تھی لیکن حکومت اور حکومت کی حامی فوج کو اطلاع تک نہیں ، کیا کہیں ایسا تو نہیں کہ دیگر گذشتہ واقعات کی طرح یہ واقعہ بھی طیب اردگان کی جانب سے اپنی پوزیشن کا مزید مستحکم کرنے اور طاقت ور بنانے لئے رچایہ گیا ہو، البتہ یہ سازشی تھیوری ہے لیکن ماضی کے چند حقائق جو میڈیا پر سامنے آئے اس کے بعد ایسا سوچنا  بین الاقوامی سیاست کے طالب علموں کا حق ہے، اس سلسلے میں ہمیں ترک صدر کے نظریہ خلافت عثمانیہ کے بارے میں جاننے کی ضرورت ہے۔

خلافت عثمانیہ کا خواب
طیب اردگان نےاپنی کئی تقریروں میں واضح کیا ہے کہ وہ خلافت عثمانیہ کے دوبارہ استحکام کے لئے کوشاں ہے، جولائی 2012 میں اپنی پارٹی سامعین سے گفتگو کرتے ہوئے اردغان نے کہاکہ انکی حکومت شام کے کراسس میں اس وجہ سے دخل اندازی کررہی ہے کہ کیونکہ ہم سلجک (Seljujs)کے وارث اور شاندار عثمانی سلطنت کی باقیات ہیں، جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی کی بنیاد میں سلجک اور خلافت عثمانیہ کی روح شامل ہے، اسی سال 2012 ستمبر میں اپنے ایک اور خطاب میں انہوں نے کہا کہ ہم اپنے فاتح سلطانوں کے نقشِ قدم پر چل رہے ہیںجسکا آغاز سلطان ارسلان سے ہوتا ہوا فاتح سلطان مہمت تک پہنچاجس نے 1046AD میں اقتدار حاصل کیا۔، دھیان رہے کہ سلجک دراصل وہ خاندا ن تھا جس نے اقتدار حاصل کیا اور بعد میں عظیم خلافت عثمانیہ کی صورت میں سامنے آیا اوریک صدی سے زائد عرصہ تک ایشیا اور یور پ کے کئی علاقوں پر حکومت کی، لہذا رجب طیب اردغان کے ان نظریات کو جاننے کےبعد انداز ہوجاتا ہے کہ ترکی کےصدر اردغان صاحب کی شام کے مسئلے میں مداخلت اور دہشتگرد تنظیم داعش کی سپورٹ کے پیچھے کیا عزائم کارفرما ہیں، دوسری جانب یورپ کے مشرقی علاقے جو خلافت عثمانیہ کا حصہ تھے میں ترک پالیسی بھی اسی مقصد کی تکمیل کے حوالےسے ہے۔

خلافت اسلامیہ کے لئے  داعش کی سپورٹ
فرانس کے صحافی اور نیوز ویک نے اپنی رپورٹس میں اس بات کا انکشاف کیا کہ القاعدہ کو مالی تعاون دینے والا سعودی بزنس مین خفیہ ملاقات کے لئے انقرہ گئے ، میڈیا رپورٹس نے اس بات کا بھی دعویٰ کیا کہ یاسین القدی نامی سعود بزنس مین نے ترک صدر کے بیٹے بلال اردغان سے ملاقات کی، اس ملات کی تصویر ترک اخبار جمہوریت سمیت تمام عالمی میڈیا نے نشر بھی کی ہیں جبکہ کہا جاتا ہے کہ یاسین القدی کا امریکا کے سابق نائب صدر ڈی چینی اور ترک صدر طیب اردغان سے قریبی مراسم ہیں، یاسین القدی سعودی بزنس مین ہے اور نائین الیون واقع میں القائدہ کو فنانس کرنے کے الزام میں عالمی دہشتگردوں کی فہرست میں شامل ہے،القدی سے ترک صدر کے بیٹے کی ملاقات کے بعد داعش کی تشکیل تیزی کے ساتھ طے پائی ، دوسری طرف ترکی کی اپوزیشن نے یہ بھی الزام لگایا کہ اردغان کا بیٹا ایک این جی او The Humanitarian Relief Foundation  کے سائے تلے دہشتگروں کو سپورٹ کررہا ہے جسکے انہوں نے ثبوت بھی پیش کیئے تھے، اسی طرح شام میں قبضہ کے بعد داعش کی آمدنی کا بڑا ذریعہ تیل کی سپلائی بھی ترکی کے ذریعہ ہوتی رہی ہےجس کو روس نے حالیہ دنوں میں بمباری کے ذریعہ ناکام کرنے کی کوشیش کی ، ترکی نے جواباً روس کے طیارے کو ہدف بناکر گرادیا ،اس واقعہ پر دنوں ملکوں کے درمیان تعلقات خراب ہوئے بلا آخر کچھ دنوں پہلے ہی اردغان نے روس سے معافی مانگ لی ہے، یہاں سے واضح ہےکہ ترکی بھی داعش کے سہولت کاروں میں شامل ہے، ترکی کا داعش کو سپورٹ کرنے کا مقصد شام و دیگر علاقوں میں اپنے اسرو رسوخ کو برقرار رکھناہے تاکہ اپنے خواب ’خلافت عثمانیہ ‘ کی بحالی کو پورا کیا جاسکے ۔


میڈیا کمپین
 اس سلسلے میں ناصر ف پاکستان بلکہ دنیا بھر میں اردغان کے اس نظریے کی حامی ناصر ف بڑی مذہبی جماعتیں ہیں بلکہ صحافی ،قانون دان ،سرمایہ دار اور دیگر اہم پروفیشنلز سے تعلق رکھنے والے گروہ بھی شامل ہیں جو ترکی کی خلافت عثمانیہ کا ودبارہ قیام چاہتے ہیں اسی لئے عوامی رائے عامہ بنانے کے لئے مختلف ایسے ڈارمے اور پروپگینڈے بھی کیئے جاتے ہیں جس میں ترک صدر کی پوزیشن کو طاقت بخشی جاسکے اور اسے عالم اسلام کا ہمدرد بناکر پیش کیا جاسکے، پاکستان میں ترک صدر کی خوبیان اور خصلتیں بیان کرنے کے لئے سوشل میڈیا پر اردو میں پیجز تشکیل دیئے گئے ہیں تاکہ پاکستانی عوام میں بھی ترک صدر کو ایک مسیحا بناکر پیش کیا جاسکےاور عالم اسلام کے مسائل کا منجی قرار دیکر زوال کا شکار ہونے والے خلافت عثمانیہ کے قیام کے لئے راہ ہموار کی جاسکے۔

اسی مقصد کی خاطر ایک واقعہ جس نے میڈیا اور بالخصو ص پاکستانی میڈیا و سوشل میڈیا پر ترک صدر کےحوالے سے کافی مقبولیت حاصل کی جس میں ترک صدر نے خودکشی کرنے والے ایک شخص کو بچالیا ،جبکہ بعد میں میڈیا کے ذریعہ ہی حقائق واضح ہوئے خودکشی کرنے والا شخص ترک صدر کی سیکورٹی پر معمور ایک اہلکار تھا ، اس ڈرمامے کو رچا نے کا مقصد عوامی رائے عامہ کو متاثر کرنا تھا، لہذا گمان ہے کہ فوجی بغاوت کا ڈرامہ بھی پلان کا حصہ ہو، کیونکہ یہ بات تو واضح ہوگئی ہے کہ اس فوجی بغاوت کے بعد ترک صدر رجب طیب اردغان کی پوزیشن پہلے سے زیادہ مزید مستحکم ہوگئی ہےنا صر ف ترکی بلکہ حقائق سے ناآشانہ مسلمان بھی ترک صد ر کے گرویدہ ہوجائیں گے یا ہوگئے ہیں اور اسکے حوالے سے خلافت عثمانیہ کو دوبارہ بحال کرنے والے عالمی گروہ نے میڈیا کمپن باقاعدگی سے شروع کردی ہے، اس کے برعکس پاکستانی عوام کا حال تو یہ ہے کہ وہ موجودہ ترک حکومت کو بھی اسلامی حکومت سمھجتے ہیں ، لہذا ان حالات میں میڈیا کمپن مزیدتڑکہ لگا کر عوام کو بے وقوف بنائے گی۔  اللہ خیر کرے

خلافت عثمانیہ کے قیام کے لئے اسرائیل کا سہارا
ترک صدر رجب طیب اردغان چاہتے ہیں خلافت عثمانیہ کے قیام میں عالمی طاقتیں انکے ساتھ تعاون کریں لہذا انہوںنے کچھ لو اور کچھ دو کی پالیسی کو اپنایا ہوا ہے، حالیہ دنوںمیں اسرائیل کے ساتھ منقطع ہونے والے تعلقا ت بھی دوبار بحال ہوئے ہیں، سفارتی تعلقات کی بحالی کی شرائط جو منظر عام پر آئی ہیں ان میں اہم یہ ہے کہ ترکی فلسطین کے مسئلہ پر مداخلت نہیں کرے گا سوائے غزہ کے محصورین کو غذا اور دیگر اجناس کی فراہمی کرنے کے، اس عمل سے اسرائیل اور ترکی دونوں کو فائدہ حاصل ہے کہ مسلمانوں کا ایک بڑا ملک فلسطین پر جارحیت کی صورت میں مداخلت نہیں کرے گا تو دوسری جانب ترکی عزہ میں مظلوم فلسطینیوں کو غذا اور امدادای سامان کی فراہمی کرکے عالم اسلام کی ہمدردی حاصل کرنے میں کامیابی حاصل کرلئے گا، یعنی ایک تیر سے دوشکار کھیلانا چاہتے ہیں۔

آخر میں سوال یہ ہے کیا غلط ذرائع او ر چور دروازے کے ذریعہ مسلمانوں کی قیاد ت حاصل کرنا عین اسلام ہے؟  داعش جیسی دہشتگرد تنظیم کا استعمال کرکے خلاف عثمانیہ میں شامل علاقوں میں بغاوت کرانا کیا عین اسلام ہے؟ کیا اسرائیل کی حمایت کے ذریعہ خلافت کا قیام ہوسکتا ہے ؟ یہ وہ سوا ل ہیں جنکے جواب دینا ابھی باقی ہیں مگر فطر ت کا قانون یہ ہے کہ غلط ذریعہ کو استعمال کرکے حاصل کی جانے والی چیز زیادہ دیر تک سود مند ثابت نہیں ہوتی، لہذا میرا مشورہ ترک صدر کو یہی ہوگا کہ اگر وہ واقعی عالم اسلام کی قیادت کرنا چاہتے ہیں تو عالم اسلام کو درپیش مسائل کی جانب متوجہ ہوں اور انہیں حل کرنے میں اپنا کردار ادا کریں ، پوانٹ اسکورنگ کرنا چھوڑ دیں مسلمان خود ہی انہیں اپنی قیاد ت تھمادیں گے ۔




















تبصرے

مشہور اشاعتیں