موصل کی آزادی کا آپریشن شروع ،داعش کا خاتمہ اور ممکنہ خطرات


عراق کے وزیراعظم حیدر العبادی کی جانب سے موصل شہر کو داعش کے قبضے سے آزاد کرانے کا آپریشن شروع کرنے کا حکم دیے جانے کے بعد عراقی فوج، کرد پیشمرگہ فورس اور عوامی رضاکار فورس نے دہشت گرد گروہ داعش کے ٹھکانوں پر شدید حملے شروع کر دیے ہیں، حملے کے ابتدائی مراحل میں تین سے چار دیہات آزاد کروانے کی اطلاعات بھی موصول ہوئی ہیں، جو اچھی پیش رفت ہے۔

 دہشت گرد گروہ داعش تقریبا دو سال قبل امریکہ اور علاقے کی بعض رجعت پسند حکومتوں کی ایک بین الاقوامی اور علاقائی سازش کے تحت عراق کے اہم شہر موصل پر قبضہ کرنے میں کامیاب ہوا۔ عراقی حکومت نے جون دو ہزار چودہ میں عوامی رضاکار فورس الحشد الشعبی سمیت عراق کی مختلف فورسز کی مدد سے دہشت گردی کے خلاف بھرپور جنگ شروع کی۔

موصل کی اہمیت 
موصل عراق کا بغداد کی طرح بڑا شہر اور قدیم شہر ہے جہاں تاریخ کے عظیم آثارِ قدیمہ پائے جاتے ہیں، ترکی اور شام جیسے اہم ممالک سے یہ شہر اپنے بارڈر شئیر کرتا ہے، 2014 میں داعش نے اس شہر پر حملہ کرکے اسے اپنے قبضہ میں لے لیا تھا، اس شہر کا داعش کے قبضہ میں آنے کی اصل وجہ عراقی فوج کے 11 افسران میں سے 9 افسران کی بغاوت بتائی جاتی ہے جو داعش سے جاملے، موصل شہر پر داعش کے قبضہ کا مطلب 2.5ملین افراد پر قبضہ کرنا ہے، یہ شہر آبادی کے لہذا سے بڑا شہر ہےجہاں عیسائی، کرد ،عراقی یہودی اور ایزدی قبائل اکثریت سکونت اختیار کیے ہوئے ہے ، موصل کیوجہ سے شام میں دہشتگردوں کے خلاف آپریشن میں بھی پریشانی کا سامنا ہے، جبکہ ذرائع ابلاغ میں یہ رپورٹس بھی سامنے آئی ہیں کہ شام میں موجود دہشتگردوں کو امریکا کی جانب سے اسلحہ بذریعہ ترکی شام پہنچایا جارہا تھا، تاہم موصل میں عراق کی پاپولر آرمی کی جانب سے کیئے جانے والے اس آپریشن کوبظاہر امریکا نے بھی سپور ٹ کرنے کا اعلان کیا ہے لیکن ایک بات کو لے کر امریکا پریشان ہے کہ اگر موصل آزاد ہوجاتا ہے تو شامی بارڈر پر عراقی آرمی اور رضا کار فورس شام کی مذاحمتی گروہوں سے جاملے گیں جو امریکی اور عرب ممالک کے مفادات کے لئے خطرناک ہے، اسی طرح ترکی اور سعودی عر ب نے بھی موصل میں حملے کی حمایت کی ہے تاہم انہیں بھی یہی خطرہ لاحق ہے۔موصل تیل سے مالا مال ہونے کے حوالے سے بھی مشہور ہے۔

 موصل کی آزادی بغداد ،تہران اور دمشق کے درمیان جغرافیائی محور 

شام کے فوجی امور کے ماہر اور تجزیہ کار نے تاکید کی ہے کہ امریکی چاہتے ہیں کہ عراقی اور شامی افواج کے آپس میں رابطے اور تعلقات قائم نہ ہو، اس لئے وہ تہران اور دمشق کے درمیان جغرافیائی محور کے خاتمے کے بھی درپے ہیں۔عرب خبر رساں ادارے کو دیئے گئے اپنے انٹرویو میں شام کے فوجی امور کے ماہر اور تجزیہ کار  میجر جنرل یحییٰ سلیمان نے شام کے مشرق پر امریکی بمباری کے مقاصد کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ امریکہ کا مقصد عراقی اور شامی فوج کو آپس میں ملنے اور رابطے سے روکنا ہے، کیونکہ ان دونوں ممالک کی افواج کا مل جانا اور تعلقات قائم کرنے کا مطلب ایران سے شام تک رابطہ لائن ایجاد ہونا ہے اور یہ ایسا اقدام ہے جسے امریکی حکومت بالکل ہی نہیں چاہتی، عراقی عوام، فوج اور حکومت کے مشترکہ تعاون نے عراق میں داعش کو کمزور کر کے رکھ دیا اور اسے صوبہ نینوا میں محصور کر دیا۔ عراق کے اعلی حکام نے عوام یعنی رضاکار فورس، فوج اور حکومت کے تعاون کے موثر ہونے کا ادراک کرتے ہوئے دو ہزار سولہ کو عراق میں داعش کے خاتمے کا سال قرار دیا اور موجودہ آپریشن کے آغاز سے ان کی یہ بات سچ ہوتے دکھائی دے رہی ہے۔

داعش کا گھیراو
موصل کی آزادی کا آپریشن شروع ہونے کا مطلب یہ ہے کہ عراق میں داعش کے خاتمے کے لیے الٹی گنتی شروع ہو گئی ہے۔ لیکن یہ بات بھی پیش نظر رہے کہ تکفیری دہشت گرد گروہ داعش اپنی شکست کو سامنے دیکھ کر اپنے حملوں اور جرائم کا سلسلہ تیز کر کے عراق میں کسی طرح مکمل شکست سے بچنا چاہتا ہے اور اس کی وجہ سے  یہ دہشت گروہ اپنے دہشت گردانہ حملوں میں مزید تیزی لا سکتا ہے، انہی باتوں کو مدنظر رکھتے ہوئے عراقیوں نے داعش کے اقدامات کو زیادہ سے زیادہ کنٹرول کرنے کے لیے ضروری تدابیر اختیار کرنے کے مقصد سے موصل کی آزادی کا آپریشن تاخیر سے شروع کیا ہے۔دوسری جانب ماہرین کا کہنا ہے کہ موصل کی آزادی کے نتیجے میں داعش جیسے دہشتگرد گروہ شام میں محصو ر ہوکر رہ جائیں گے۔

عراقی رضاکار فورس اور آرمی کی ذمہ داری 
اس پورے آپریشن کے دوران عراقی رضاکار فور س اور آرمی کو اس بات کا پورا دھیان رکھناہو گا کے سویلین آبادی پر بمباری نا کی جائے تاکہ عام عوام اس جنگ سے متاثر نہ ہوں، جبکہ آزاد کروائے جانے والے علاقوں کے محصورین کو فوری امداد مہیا کرنا، انکے مال اور ناموس کی حفاظت کرنا بھی عراقی رضاکار فورس اور آرمی کی سخت ترین ذمہ داری ہے ، اس حوالے سے عراق کے بزرگ شیعہ مرجع تقلید آیت اللہ سیستانی نے فتویٰ بھی صادر کیا ہوا ہے کہ آزاد ہونے والے علاقوں کے عوام کو ہر طرح کی سہولیات فراہم کی جائیں ، جبکہ انکے جان و مال کی حفاظت کو انہوں نے واجب قرار دیا ہے۔

شیعہ سنی تصادم کا پروپگنڈا اور عراقی عوام کی ذمہ داری 
موصل کی آزادی کی جنگ پر فرقہ پرست عناصر اس محاذ کو شیعہ سنی فسادات کا رنگ دینے کی بھی کوشیش کررہے ہیں، چونکہ موصل سنی اکثریتی علاقہ ہونے کے ساتھ ساتھ دیگر مذاہب کے ماننے والوں کا بھی مرکز ہے جس میں ایزدی، عراقی یہودی اور عیسائی شامل ہیں، چونکہ عراقی آرمی اور رضاکار فورس کی کمانڈ شیعہ مسلمانوں کے ہاتھ میں ہے اس لئے اسے شیعہ سنی تصادم قرار دیا جاسکتا ہے جو انتہائی پست سوچ کی علامت ہوگا ، عراقی رضاکار دستوں میں صرف شیعہ ہی نہیں بلکہ سنی مسلمان سمیت عراقی شہریوں کی بڑی تعداد موجود ہے جو اپنے ملک کو دہشتگردں سے پاک کرنا چاہتے ہیں۔ دوسری جانب موصل کی آزادی سے خائف طاقتیں اور خود داعش اس پروپگنڈے سے فائدہ حاصل کرسکتی ہے،یہاں عراقی عوام کی بھی ذمہ داری ہے کہ وہ دھوکے کا شکار نا ہوں۔

آخر میں عالم اسلام بالخصوص پاکستانیو ںسے بھی یہی گذارش ہوگی ہے وہ بھی کسی دھوکے کا شکار نہ ہوںاور مسئلہ کو شیعہ و سنی مسئلہ کی نگاہ سے دیکھنے کی بجائے مسلم نگاہ سے دیکھیں یا بین الاقوامی امور کے حوالے سے تجزیاتی نگاہ کا استعمال کرکے عوام کو آگاہ کریںتاکہ خطہ میں امن قائم ہوسکے، عراق جہاں یہ مسئلہ ایجاد ہوا ہے وہاں فرقہ وارانہ ہم آہنگی دیکھی جارہی ہے جسکی تازہ مثال عاشورہ محرم پر اہلسنت بھائیوں کا انتظامات میں حصہ لینا  اسی طرح بغداد سمیت دیگر علاقوں میں مجالس و دیگر پروگرامات میں دہشتگردی کے واقعات میں شیعہ مسلمانوں کی جانب سے سنی مسلمانوں کو قصور وار نا ٹھرانہ عراقی عوام کے اتحاد و یکجہتی  کی علامت ہے، وہ جانتے ہیں کہ انکا دشمن کون ہے ؟ اسی لئے انہوں نے اپنی آرمی کے ہاتھ مضبوط کرتے ہوئے اپنے دشمن کے خلاف قیام کیا ہے اور اللہ رب العزت انہیں اس میں کامیابی عطا کرے گا، ہم بس انکے حق میں دعا کریں۔

تبصرے

مشہور اشاعتیں