حلب کی اہمیت
شام میں جاری جنگ
اپنے آخر مراحل میں داخل ہوگئی ہے ،اطلاعات کے مطابق دہشتگردوں کے قبضہ میں تاریخ
شہر حلب کو شامی فوج نے آزاد کروالیا ہے،
اس حوالے سے بشار حکومت کی مخالف سمجھی جانے والی انسانی حقوق کی تنظیم نے بدھ
کی صبح اپنے بیان میں کہا کہ شام کی فوج نے حلب شہر پر مکمل کنڑول حاصل کرلیا ہے۔
برطانوی معائنہ کار تنظیم کا بھی کہنا ہے
کہ منگل کی رات سے جاری جنگ سے پسپا ہونے والے دہشتگرد حلب شہر چھوڑ کر فرار ہوگئے
ہیںاور شامی حکومت نے ا س شہر پر ممکمل کنٹرول حاصل کرلیا ہے۔
حلب شہر کی آزادی شام اور اسکے اتحادیوں
مقاومتی بلاک کی بڑی کامیابی ہے کیونکہ حلب جہاں پر دہشتگردوں نے کئی سالوں سے قبضہ
کر رکھا تھاکی آزادی اسرائیلی بلاک کی مزید پسپائی کا سبب بنے گی۔
شام کے شہر حلب کی آزادی اس قدر اہم ہے
کہ روزنامہ الحیات نے حلب کے معرکے کو زندگی اور موت کی جنگ قرار دیا ہے۔حلب شام کا
سب سے بڑا شہر اور خانہ جنگی کے آغاز سے قبل مشرق وسطیٰ کے اس ملک کا اقتصادی مرکز
تھا۔ اس پر مختلف ادوار میں یونانی اور مختلف مسلمان بادشاہ قابض رہے تھے۔ انیس سو
چھیاسی میں اسے اقوام متحدہ نے عالمی تاریخی ورثے میں شامل کیا تھا۔ حلب شام پر اسد
خاندان کی حکومت کی ابتدا سے ہی ملک کا تجارتی مرکز سمجھا جاتا ہے، جبکہ اسے شام کا
سب سے بڑا شہر ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہے۔ حلب کے حدود اربع اور ملک کے شمال کو جنوب
سے ملانے والی شاہراہ پر واقع ہونے نے اس شہر کی اسٹریٹجک اہمیت کو دوبالا کر دیا ہے۔
درعا – دمشق – حمص – حماہ – ادلب – حلب روڈ شام کی اہم ترین شاہراہ ہے، جو اس ملک کے
شمال کو جنوب سے ملاتی ہے۔ اگرچہ اس ٹرانزٹ روڈ کا رقبہ پورے ملک کی نسبت زیادہ نہیں
ہے، لیکن بحیرہ قلزم کے کنارے واقع ہونے اور سرسبز اور صحت افزا ہونے کے باعث ملک کی
75 فیصد آبادی اس علاقے میں مقیم ہے۔ لاذقیہ اور طرطوس میں صدر بشار الاسد کے گہرے
اثر و رسوخ کے پیش نظر، حلب کی ممکنہ آزادی کی صورت میں ملک کے اہم اور کلیدی علاقوں
پر حکومت کا کنٹرول بحال ہو جائے گا۔ حلب کی اقتصادی، تجارتی اور سکیورٹی اہمیت کے
علاوہ اس شہر کا ترکی کی سرحد پر واقع ہونا ہے جسکی وجہ سے شامی فوج اور اسکے اتحادیوں
کو یہ شہر آزاد کروانے میں مشکلات کا سامنا تھا، ترکی حلب میں موجود دہشتگردوں کا
لوجسٹک سپورٹ مہیا کررہا تھا۔
شام کے اس تجارتی مرکز کی آزادی دہشتگردوں
کی پشت پناہ عالمی ریاستوں کی خوب کو چکناچور کرنے کے معترادف ہے ۔
بین الاقوامی عرب تجزیہ نگار حامد رحیم
نے اپنے ایک مضموں میں لکھا کہ گذشتہ چند ماہ کے دوران شام میں جنگ کا نقشہ بہت بدل
گیا تھا، ایک ماہ قبل تک تکفیری دہشت گرد گروہ "داعش" کی پیش قدمی جاری تھی
اور وہ اپنے زیر کنٹرول علاقوں میں یکے بعد دیگرے اضافہ کرتا چلا جا رہا تھا، یہاں
تک کہ شام کے آدھے اور عراق کے دو تہائی حصے پر قابض ہوچکا تھا۔ دوسری طرف شام میں
سرگرم دیگر حکومت مخالف مسلح دہشت گرد گروہ جیسے فری سیرین آرمی، احرار الشام اور
النصرہ فرنٹ کی جانب سے ادلب اور جسر الشغور جیسے اہم شہروں پر قبضے نے ان کے حامی
سعودی عرب اور ترکی اتحاد کو انتہائی پرامید کر دیا تھا اور وہ شام میں صدر بشار الاسد
کی حکومت کی سرنگونی کی آس لگائے بیٹھے تھے۔ اس کے نتیجے میں مغربی طاقتیں شام کی
تقسیم کے خواب بھی دیکھنے لگیں اور انہوں نے اپنے اس ناپاک منصوبے کو عملی جامہ پہنانے
کیلئے منصوبہ بندی شروع کر دی۔ دہشت گرد ترکی کی سرحد پر واقع شام کے شمالی حصے میں
اپنے لئے پرامن ٹھکانہ بنانا چاہتے تھے اور اس علاقے میں ایک عارضی عبوری حکومت کی
تشکیل کا منصوبہ بھی بناچکے تھے، تاکہ اس طرح شام حکومت کی اپوزیشن جس کا وجود اب تک
صرف شام کی حدود سے باہر تک محدود تھا، کو شام کے اندر سرگرمیاں انجام دینے کا موقع
میسر کرسکیں۔ لیکن شام میں روس کی جانب سے وسیع اور موثر فوجی کارروائی شروع ہونے کے
بعد جنگ کا نقشہ ہی بدل گیا۔ روس کے ہوائی حملوں اور شام آرمی اور حزب اللہ لبنان
کے زمینی حملوں کے نتیجے میں حلب کا بڑا حصہ تکفیری دہشت گردوں کے قبضے سے چھڑا لیا
گیا ۔
کہا جارہا ہے کہ حلب کی آزادی شام میں جاری جنگ کی تقدیر پلٹ دے گی اور
دہشت گردوں کے مکمل خاتمے کا زمینہ بھی فراہم کر دے گی، شام میں ہونے والی اس بڑی پیش
قدمی کا کریڈیٹ موصل میں عراقی فوج کے داعش کے خلاف بڑے کریک ڈوان کو بھی جاتا ہے،
لہذا حلب اور موصل شہر اگر مکمل آزاد ہوجاتے ہیں تو خطہ سے داعشی دہشتگرد ی کا مکمل
خاتمہ ممکن ہے۔
شام میں سورش 2011 میں شروع ہوئی تھی،اپوزیشن
کے احتجاج سے شروع ہونے والی تحریک مسلح دہشتگردی میں تبدیل ہوگئی ، فری سیرین آرمی،
النصر فرنٹ ،داعش اور دیگر گروہوں نے مختلف علاقوں پر قبضہ کرلیاان دہشتگرد گرو ہوں
کو امریکا، اسرائیل، یورپ سمیت ترکی اور سعودی عرب اور عرب ممالک کی مکمل پشت پناہی
حاصل تھی، اسکی اصل وجہ بشار السد کا عرب ممالک سے زیادہ ایران اور روس کا اتحادی ہونا
تھا جو عرب اور یورپ کے لئے پریشان کن بات تھی دوسری جانب عرب ممالک میں شام وہ واحد
ریاست ہے جو اسرائیلی ریاست کے لئے خطرہ تصور کی جاتی تھی ، شام اسرائیل مخالف تنظیموں
حزب اللہ اور حماس کا سپورٹر اور ۲۰۰۶ حزب اللہ اور اسرائیل کے درمیاں جنگ میں اسرائیل مخالف کارئیوں کا ہیڈکوارٹر
تھا دوسری طرف شام گولان ہائٹس نامی پہاڑی علاقہ پر اسرائیلی قبضہ کا مخالف بھی تھااور
اسکی واپسی کا مطالبہ رکھتا تھا ، یہ ہی وہ جرم تھا جسکی بنیاد پر دنیا بھر کی عالمی
طاقتوں اور اسرائیل نواز اسلامی حکومتیں بشار حکومت کے خلاف متحدہ ہوکر شام میں
داخل ہوئے لیکن مقاومتی اتحاد شام ،روس، ایران اور حزب اللہ اور کہیں کہیں چین نے ۴ سال استقامت دیکھا کر دہشتگردوں اور انکے
حامیوں کو رسوا کردیا۔
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں