پاکستان طلبہ کے لئے ایمرجینسی اسٹیٹ بناتا جارہا ہے
Email: Only_ahsan@live.com
Twitter @only_ahsan
Twitter @only_ahsan
کسی بھی ملک کا مستقبل اور اسکے معمار طلبہ ہوتے ہیں لیکن انتہا پسند اور شدت پسند نظریات کی وجہ سے پاکستان طلبہ کے لئے
ایمرجینسی ریاست بنتا جارہا ہے کہ جہاں اب طلبہ کی جان و مال محفوظ نہیں،
ایک طالب علم کو سکون کا ماحول جب تک میسر نہیں آئے وہ اپنی تعلیمی
سرگرمیوں کو بہتر انداز میں جاری نہیں رکھ سکتا، لیکن آج ہمارے ملک کی یہ
حالت ہوگئی ہے کہ طالب علم اسکول اور یونیورسٹی جاتے ہوئے گھبراتے ہیں کہ
کہیںکوئی دہشتگردی کا واقعہ نا ہوجائے، یہی خدشہ والدین جو اپنے بچوں کو
اسکول اور یونیورسٹی بھیج رہے ہیں انکو کو بھی لگا رہتا ہے۔باچا خان
یونیورسٹی حملے کے بعد ایک میڈیا رپورٹ دیکھنے کا موقع ملا جس میں جامعہ
کراچی کی ناقص سیکورٹی کے حوالے سے رپورٹ دی گئی،اس سے قبل بھی کراچی کی
کئی تعلیمی اداروں کو دہشتگردوں کی جانب سے دھکمیاں دی جاچکی ہیں۔
اس صورتحال کی وجہ سے عالمی سطح پر بھی پاکستان کاامیج متاثر
ہوا ہے، پاکستان وہ ملک ہے کہ دنیا کے مختلف ممالک سے طلبہ آکر ہمارے دیگر
اداروں میں تعلیم حاصل کررہے ہیں ،انکی تعداد قدر کم ہے لیکن اس صورت حال
کی وجہ سے غیر ملکی طلبہ اب پاکستان آنے سے گریز کرتے ہیں۔
ایک امریکی ادارے کی درجہ بندی کے لحاظ سے دنیا بھر میں تعلیمی
اداروں پر ہونے والے دہشت گردانہ حملوں میں ہلاکتوں کے حوالے سے پاکستان
پہلے نمبر پر ہے۔ پاکستانی تعلیمی اداروں پر 753 حملے کئے گئے۔
امریکا میں قائم ’’یونیورسٹی آف میری لینڈ‘‘ میں گزشتہ چالیس
سال سے دنیا بھر میں دہشت گردی کے واقعات پر نظر رکھنے والے ’’گلوبل
ٹیررازم ڈیٹا بیس‘‘ کے مطابق پاکستان میں تعلیمی اداروں پر حملوں میںتین سو
پندرہ 315طلبہ شہید ہوئے۔ یہ تعداد دنیا بھر میں تعلیمی اداروں پر حملوں
میں ہلاک ہونیوالوں میں سب سے زیادہ ہے۔ اس فہرست میں پاکستان کے بعد دوسرا
نمبر نائیجریا کا ہے۔
گلوبل ٹیررازم ڈیٹا بیس کے اعدادو شمار کے مطابق پاکستان کے
تعلیمی اداروں پر 753 حملے ہوئے جن میں سب سے زیادہ خطرناک سولہ دسمبر دو
ہزار چودہ کو پشاور میں آرمی پبلک سکول کا حملہ تھا۔
ان اعدادو شمار کے مطابق انیس سو ستر سے لے کر دو ہزار چودہ تک
جنوبی ایشیاء میں تعلیمی اداروں پر سب سے زیادہ حملے ہوئے، جہاں مرنے
والوں کی کل تعداد نو سو اکیاون ہے۔ اسی عرصے کے دوران دنیا بھر کے تعلیمی
اداروں پر چودہ سو چھتیس دہشت گردانہ حملے ریکارڈ کیے گئے جن میں سے ساٹھ
فیصد پاکستان کے تعلیمی اداروں پر ہوئے۔اس رپورٹ کے مطابق ان حملوں میں
حملے 94 فیصد غیر مہلکہ ہھتیاروں 90 فیصد دھماکہ خیز ہتھیاروں اور 7فیصد
فائر بم کا استعمال ہوا۔
پاکستان پیس اسٹڈی کے مطابق تعلیمی اداروں پر ہونے والے حملوں
میں سب سے زیادہ حملے صوبہ خیبر پختونخوا اور فاٹا کے علاقہ میں ہوئے،جبکہ
دوسر ے نمبر پر صوبہ بلوچستان ہے، یہ حملے پرائمری سے لے کر ہائی اسکول اور
یونیورسٹیز پر ہوئے۔
سن دوہزر دو 2002 سے ابتک ہونے والے اہم تعلیمی اداروں اور تعلیم سے منسلک شخصیات پر ہونے والے حملوں کی تفصیل حسب ذیل ہے۔
Month/Year | School /University Name | Casualties |
5 August 2002 | Missionary School Murree | 6 Killed 4 injured |
16 June 2006 | Orakzai Agency | 2 teacher and 2 Student Killed |
10 December 2007 | Suicide Attack on Minhas Air base,Kamra | |
4 Febuaray 2008 | Suicide Attacked on School bus, Army Medical Collage,GHQ RWP | 10 killed and 27 injured |
20 October 2009 | Suicide Blast Islamic University , Islamabad | Six Killed 29 injures |
3 february 2010 | Blast Near School, FATA | 10 Killed |
19th April 2010 | Blast Near School Peshawar, School Run by Police | 23 killed 40 injured |
27 August 2010 | Blast in School Baratehsil,Sipah Area, FATA | No Casualty |
13 December 2010 | Attacked on School Bus in Kohat | 2 Killed 4 injured |
13 September 2011 | Attack on School Bus Peshawar | 4 student and driver Killed |
28 December 2010 | Karachi University Blast | 3 Student were Injured |
4 October 2011 | Gunman attack School teacher in Khuzdar Balochistan | Teacher killed on Spot |
9 October 2012 | 2 Suicide on School in Peshawar and Charsada, Also Malala Yousuf Injured in attacked | Mala Yousuf Zai injured |
31 March 2013 | School Attacked in Karachi | Principal and some Student Killed |
16 December 2014 | Amry Public School Peshawar | 131 Student killed |
20 January 2016 | Bacha Khan University, Charsada | 21 killed |
پاکستان کی سرزمین پر تعلیمی اداروں میں ہونے والے حملوں میں
سے زیادہ تر اہم حملوںکی ذمہ داری کالعدم تحریک طالبان پاکستان نے قبول کی
یا اسی نظریہ سے متاثر مختلف گروہوں کی جانب سے کئے گئے، جبکہ نائیجریا کی
سرزمین پر یہ اسلام مخالف کام بوبوکو حرام نامی تنظیم کررہی ہے۔
نائیجریا میں دہشتگرد تنظیم بوکو حرام کا نعرہ ہی’ مغربی تعلیم
حرام ‘ ہے رکھا گیا ہے، وہ اسکول کےبچوں کو اغوا کرلیتے ہیں اور اسکول کو
تباہ بھی کردیتے ہیں، ابتک انہوں نے کئی لڑکیوں کو اس لئے اغوا کرلیا ہے کہ
وہ اسکول جاتی ہیں، بلکل یکسان صورت حال پاکستان میں طالبان کی بھی ہے،
دنوں تنظموں میں قدرِ مشترکات ہیں ، لیکن اہم بات یہ ہے کہ دونوں تنظیمیں
خود کو اسلام پسند اور کٹر مسلمان سمھجتی ہیں اور اپنے مکروہ اقدام اسلام
کے نام پر کررہی ہیں، جبکہ اسلام ناب محمدی (ص) میں اسطرح کا کوئی نظریہ
نہیں ہے، اللہ کے رسول(ص) کا فرمان ہے کہ’ علم حاصل کرنا ہر مرد و عورت پر
فرض ہے ‘۔
خیر پاکستان کی بات کرتے ہیں کہ ایک جرمن خبر رساں ادارے کی
رپورٹ میں تجزیہ کاروں نے کہا کہ اعدادو شمار سے پاکستان میں تعلیمی اداروں
کی سلامتی کے حوالے سے ایک خوفناک صورتحال سامنے آتی ہے۔ پاکستان میں
آرمی پبلک اسکول پر حملے کے بعد دہشت گردی کے خلاف ایک قومی ایکشن پلان
بھی ترتیب دیا گیا تھا جس کے تحت سکولوں کی سیکورٹی پر خصوصی توجہ دی جارہی
تھی۔ تاہم وفاقی دارالحکومت سمیت ملک کے دیگر شہروں میں ہزاروں سکولوں
،کالجوں اور یونیورسٹیوں کی سیکورٹی سخت کرنا ابھی بھی ایک بڑا چیلنج ہے۔
حال ہی میں باچا خان یونیورسٹی حملے کے بعد طالبان رہنما ملا
عمر منصور کا ویڈیو پیغام واضح کرتا ہے کہ طلبہ کے لئے پاکستان ایمرجنسی
ریاست بن گیا ہے، دہشتگرد تنظیم طالبان کمانڈر عمر منصور نے اپنی اس ویڈیو
میں واضح الفاظ میں کہا:’’ اب ہم فوجیوں کو چھاؤنیوں میں نشانہ نہیں
بنائیں گے، نہ ہی عدالتوں میں وکلاء پر اور پارلیمان میں سیاستدانوں پر
حملے کیے جائیں گے بلکہ ہم اس بنیاد کو ہلائیں گے، جہاں پر ان سب کو تیار
کیا جاتا ہے، یعنی اسکول، کالجوں اور یونیورسٹیوں کو۔‘‘ اس موقع پر منصور
کے اطراف چند دہشت گرد بھی موجود ہیں، جن میں تین کے چہرے چھپے ہوئے ہیں۔
لہذا ضرورت اس امر کی ہے کہ پاکستان کو دہشتگردی کی اس لعنت سے
آزاد کروانے کے لئے ملک کے تمام مقتدر حلقہ باہم اتحاد و یکجہتی کے ساتھ
ملک کی سلامتی و بقا کی خاطر دہشتگردی کے خلاف بنائی گئی پالیسیوں اور
قوانین کو شفاف انداز میں نافذ کریں، تاکہ اس ملک کے مستقبل اور معمار جو
مایوس ہوکر پاک وطن کو چھوڑ کرجانے کی فکر میں اطمینان سے اپنی تعلیمی
سرگرمیوں کو جار ی رکھ کر اس ملک کی تعمیر و ترقی میں اپنا حصہ ڈالنے کے
قابل ہوسکیں۔
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں