تحریر : سید محمد احسن
11 فروری کو بین الاقوامی سیاسیات میں بہت اہمیت حاصل ہے، کیونکہ اس دن عالمی سیاست پر ایکایسا عوامی انقلاب سامنے آیا, جس نے دنیا بھر کے ناصرف ماہرین سیاست بلکہ عالمی طاقتور قوتوں کو بھی پریشان کرکے رکھ دیا، ان عالمی قوتوں کی پریشانی کی وجہ یہ تھی کہ انقلاب فرانس کے بعد سے آنے والے تمام نام نہاد عوامی و دیگر انقلابات کسی نo کسی طور پر کسی عالمی طاقت کے زیر سایہ یا زیر اثر رہے، اگر ایسا نہیں بھی ہوتا تو کچھ عرصہ بعد وہ انقلابات عالمی طاقتوں کے سامنے زیر ہوجاتے، لیکن  1979ء میں آنے والے اس انقلاب اسلامی نے ماضی کی تمام کیکولیشنز کو غلط ثابت کر دیا، یہاں تک کہ سی آئی اے کے اُس وقت کے اہلکار نے امریکی حکام کے سامنے اعتراف کیا کہ ایرانی انقلاب کے حوالے سے ہماری تمام تدبیریں ناکام رہیں، یہاں تک کہ آج یہ انقلاب ماضی کی نسبت زیادہ مضبوط ہوتا جا رہا ہے اور عالمی طاقتیں اب اس انقلاب کے ساتھ مذاکرات کی میز پر آگئی ہیں۔

دوسری جانب 11 فروری 2011ء کے روز ایک اور عوامی انقلاب عالمی سیاسیات کے افق پر نمودار ہوا، یہ انقلاب عرب بہار کے نتیجے میں آنے والی تحریکوں سے متاثر ہوکر مصر میں برپا ہوا، یہ انقلاب بھی عوامی انقلاب تھا کیونکہ عوام اپنے حقوق کے لئے سڑکوں پر نکلے تھے، عوام سالوں سے قابض ڈکٹیٹر حُسنی مبارک سے نجات مانگ رہے تھے، وہ ملک میں جہوریت، معاشی اصطلاحات اور خود مختار آئین کا مطالبہ کر رہے تھے، ایرانی انقلاب کی طرح یہاں بھی مذہبی، سیکولر، سرمایہ دار نظریات کے حامل تمام تر جماعیتں اور قوتیں عوام کے ہمراہ اس انقلابی تحریک کا حصہ تھیں اور بلآخر سول ڈس اوبیڈنس تحریک، مظاہروں، تحریر اسکوائر قبضہ اور عوام اور مصری فوج کے درمیان ہونے والے بدترین تصادم، ہزاروں ہلاکتوں کے بعد بلآخر 11 فروری 2011ء کو مصری صدر حُسنی مبارک نے بھی شاہ ایران کی طرح اختیارات سے ہاتھ اُٹھا لئے۔

بظاہر مصر میں انقلاب کامیاب ہوا اور الیکشن کے نتیجے میں اخوان مسلمین نامی اسلام پسند تنظیم نے حکومت قائم کی اور محمد مرسی 30 جون 2012ء کو صدر منتخب ہوئے، مگر صرف ایک سال بعد ہی 3 جولائی 2013ء کو عوامی کوششوں سے آنے والے انقلاب کا پانسہ اس طرح پلٹا کہ ایک بار پھر حسنی مبارک جیسا ڈکٹیٹر عبدالفتح السیسی کی صورت میں مصر پر برجمان ہوگیا، جو آج تک مصر پر حکومت کر رہا ہے، کہاں گیا انقلاب، کہاں گئی عوامی جدوجہد اور کوشش۔؟ دوسری جانب ایران کا انقلاب ہے جو اپنے تمام تر انقلابی نعروں اور شعار کے ساتھ مزید ترقی کی منازل طے کر رہا ہے، جسے آج 37 سال کا عرصہ گذر گیا۔ لیکن مصر میں کیوں مصری رہنما و لیڈر شپ انقلاب کو ایک سال بھی زندہ نہ رکھ سکی، اسکی وجوہات مختلف ہوسکتی ہیں، لیکن جو چند نقاط میرے ذہن میں وہ کچھ یوں ہیں۔
عوامی امنگوں کے مطابق لیڈر شپ کا فقدان
انقلاب کی کامیابی کے بعد انقلابی حکومت کے استحکام میں ناکامی
ایسا نظام متعارف کروانے میں ناکامی جو انقلاب کا دفاع کرسکے
اسلامی انقلاب کا نعرہ اور اخوان کے اسلام مخالف اقدامات
انقلابی عوامی نعروں کے برخلاف اخوان المسلمین کی پالیسی
ایران کے مقابل سعودی عرب و اسرائیل سے دوستی
عالم اسلام کی امیدوں مثلاً فلسطین کاز سے دستبرداری وغیرہ
اس کے علاوہ بھی بہت سے عناصر 11 فروری کو مصر میں آنے والے انقلاب کی ناکامی کی وجہ بنے۔


جیسا کہ اوپر ہم نے بات کہی کہ انقلابات ہمیشہ عالمی طاقتوں کے زیر اثر رہے یا بعد میں ان کے قدموں میں گرتے رہے، مصر کے انقلاب کے ساتھ بھی ایسا ہی کچھ ہوا، سابق امریکی وزیر خارجہ کا بیان اس حوالے سے کافی اہمیت کا حامل ہے، وہ کہتا ہے کہ ہمیں بحران (انقلابات) سے گبھرانے کی ضرورت نہیں، کیونکہ ہم ان بحرانوں کی موجووں سے کھیلنا جانتے ہیں، لہذا وہ مصری انقلاب کی موجووں سے کھیل گئے، لیکن ایران میں آنے والے انقلاب نے عالمی طاقتوں کو بحران سے کھیلنے نہیں دیا بلکہ اس بحران میں انہیں اس طرح پھنسا دیا کہ مجبوراً انہیں میز پر بیٹھ کر برابری کی حیثیت سے انقلاب اسلامی سے مذاکرات کرنے پڑ رہے ہیں۔ آخر ایسا کیوں؟ شاید اس کی وجہ اس انقلاب کا اپنے شعار پر ثابت قدم رہنا، صالح اور مخلص قیادت کا ہونا، انقلابی نظام جو نظام رسول اللہ (ص) ہے، یعنی ولایت (شیعوں کا سیاسی نظام) کا نفاذ جسے عوام نے ریفرنڈم کے ذریعے قبول کیا، مکتب اہلیبت (ع) کے مطابق نظام ولایت وہ حقیقی نظام ہے، جو انسانوں کی تمام ضروریات کو پورا کرسکتا ہے، کیونکہ یہ نظام انسانوں کو پیدا کرنے والے رب کا نظام ہے)، اس کے علاوہ خود انحصاری اور ظالمین کے مقابل مظلومین کے کیمپ میں خود کو شامل کرنا جیسے عوامل اس انقلاب کی بنیاد ہیں۔

تبصرے

مشہور اشاعتیں